ایران - پاکستان تنازعہ اور فوج پر تنقید کرنے والے لبرلرلز اور انصافیوں کا یکایک قوم پرستانہ ہیجان جاگ اٹھنا
واقعہ:
(نوٹ: ایرانی اور پاکستانی ریاستی زرائع کے مطابق 16 جنوری کو ایرن نے پاکستانی بلوچستان کے علاقہ پنجگور میں میزائیل مارا، جس سے پاکستانی حکومت کے مطابق دو بچے ہلاک ہوئے، ایرانی حکومت کے مطابق اس سے ایران مخالف بلوچ تنظیم ‘جیش عدل کے ٹھکانے کو نشانہ بنایا گیا۔
واقعہ سے پہلے کے لبرل حلقے اور تحریک انصاف ہمایتی کا زاویہ نگاہ :
ایک طرف پاکستانی کے لبرل سرکلز کی ایک بڑی تعداد نے، کچھ مستثنیات کو چھوڑ کر، اس پر کل سے سوشل میڈیا پر ایک کہرام مچا یا ہوا ہے، پچھلے ۵ سالوں سے ان کی جو فوج کے سیاسی کردار پر شدید تنقید ایک دم جھاگ کی طرح بہہ رہے ہے اور وہ ایک دم قوم پرست ہوگئے، یعنی اسی فوج سے ساتھ کھڑے ہوگئے اور کچھ تو ‘فوری بدلہ لیں’ کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
دوسری طرف یہی اچانک قوم پرستی کا جاگا جزبہ ایک اور طرف سے بھی آرہی ہے۔ یہ ہیں پچھلے ۲ میں پیدا ہوئے تحریک انصاف ہمایتی فوج کے نئے مخالفین۔ یہ نظریاتی طور پر سینٹر یا دائیں بازو کے نظریات کے حامل ہیں۔ یہ بہت شدید انداز میں فوج کر برا بہلا کہتے ہیں اور اسے ادارے کو پاکستان کے سارے مسائل کی جڑ کہتے ہیں۔ ہاں، البتہ یہ حقیقت ان پر صرف ۲ سال پہلے کھلی، یعنی صرف اس وقت سے نہیں جب فوج نے ۲۰۱۸ کے الیکشن میں فوج نے عمران خان کو پوری مدد سے حکومت میں لائے، مگر ۲۰۲۲ اپریل سے جب فوج نے اس کی ہمایت سے ہاتھ اٹھایا، اور یہ فوج - عمران ناراضگی چلتے چلتے عداوت میں تبدیلی ہوگئی۔۔
تجزیہ، رائے:
ارے بھائیوں ، ریاست اور حکمران اشرافیہ پاکستان کی ہو کہ ایران کی، دونوں عوام دشمن ہیں، چھوٹی قوموں پر جبر کرنیوالی ہیں۔ بلوچ قوم پاکستان میں بھی اقلیت ہیں ایران میں بھی۔ پاکستانی فوج اور ریاست بھی بھی بلوچ پر جبر کرتی ہے کیونکہ اسے بکوچوں کی زمین کے وسائل چاہیئے، اسے بکوچ انسانوں کی بہتری سے کوئی غرض نہی۔ ایران کی ریاست کا بے یہی حال ہے۔ اسلئے دونوں طرف بلوچ اس جبر کیخلاف مزاہمت کر رہے ہیں۔
ایسے میں پاکستانی ریاست ایران کے اندر بلوچوں کو مارے، یا ایرانی ریاست پاکستان کے اندر بلوچ کو مارے، اس پر پاکستانی قوم پرستی اور جنگی طبل بجانے و Jingoism کے بجائے مظلوم بکوچوں کے ساتھ یکجہتی کریں ، دونوں فوجی ریاستوں کی war machine کی مخالفت کریں۔ عجیب ڈبل سٹینڈرڈ رکھے ہیں۔
یہ سرمایہ دارانہ nation state اور اس سے attached قوم پرستی بھی بڑی regressive آئیڈیالوجی ہے۔ یہ سماج کی مڈل کلاس و نچلے طبقے کو بھی حکمران کرنے والی ایلیٹ کے مفادات کی پرستش کرنے والا بنا دیتی ہے۔ یعنی پرائی شادی میں عبداللہ دیوانہ۔ پاکستانی ریاست پچھلے ۱۵ سال سے اپنے ملک کے اندر ہمارے ہزاروں بلوچ ہم شہریوں کو بلا دریغ اور ماوارائے عدالت اغوا کرتی رہی ہے، پھر تشدد ، پھر غیر قانونی سلاسل اور پھر قتل۔ مگر اسی سرمایہ دارانہ ریاستی قوم پرستی کے جزبے سے جڑے رہنے کی وجہ سے پاکستانی میں بسنے والی دوسری قوموں کی وسیع اکثریت کا ضمیر آرام کی نیند سوتا رہا۔
پر جیسے ہی آج ایرانی حملے میں ۲ بلوچوں کے مرنے کی خبر آئی تو نہ صرف بلوچ معاملہ پر سویا ہوا حکمران طبقہ کا مین سٹریم میڈیا جاگ گیا، بلکہ اکثریتی لبرل کی “ حب الوطنی “ بھی جاگ اٹھی۔ یعنی پاکستانی فوج ہزاروں بلوچ مارے تو ٹھیک، دوسرا کوئی ملک مارے تو “ہماری سالمیت پر حملہ”۔ یعنی بلوچ کی بطور ایک انسان جان کی کوئی اہمیت نہیں۔ اہمیت صرف ‘حب الوطنی’ ، “ پاکستانی قوم پرستی “ کے بھڑکیلے جزبے کی ہے، جس کا رشتہ اس پاکستان نامی زمین پر بسنے والے جیتے جاگتی انسانوں کی زندگی اور بہتری سے نہیں، بلکہ اس زمین کی پرستش سے ہے۔ یہ ہے سرمایہ دارانہ قومی ریاست کا اصل پرستش والا مکروہ چہرہ، جس کا انسان کی بھلائی سے کوئی رشتہ، تعلق، واستہ نہیں، یہ ایک زمین کے ٹکڑے کو پوچتی ہے، جس پر حکمران اشرافیہ کا کنٹرول ہے۔
ساری کہانی کا خلاصہ یہ کہ سرمایہ دار طبقہ کی اِن nation states میں انسان کی کی زندگی کی کوئی قدر و قیمت نہیں۔ البتہ حکمران طبقہ Motherland کا جعلی ایک نظریہ گھڑتا ہے، پھر نچلے طبقات میں اس کی اتنی تشہیر کی جاتی ہے کہ وہ اسے پوجنے لگتے ہیں۔ اور پھر حکمران طبقہ “ حب الوطنی” اور “ قومی مفاد” کا Tag لگا کر جو بھی بدمعاشی، استحصال، جبر ملک کے اندر یا باہر کرے، نچلے طبقات آنکھیں بند کر کے آمدنا صدقنا کہتے ہیں۔ حکمران طبقہ کسی بھی عوام کے اندر سے اٹھنے والی حقوق ،انصاف کی تحریک پر “ ملک مخالف “ کا لیبل لگا دے، اشرافیہ کی nation stare کی نظریاتی hegemony میں پھسے نچلے طبقات اپنے ہی طبقہ اور دیگر جبر زدہ قوموں سے نکلی انصاف، برابری اور ریاستی جبر کے خاتمہ کا مقصد لی ہوئی تحریکوں پر بھی شک کرنے لگتے ہیں۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ فوج اور سرمایہ دار طبقہ، اس کی میڈیا کے پھیلائے اس “ قومی ریاست” کی “ پاکستانی قوم پرستی “ اور “ زمین پرستی” ، motherland کے ڈھکوسلہ کو سمجھ کر “ انسان دوستی” اور انسانی یہجہتی کا دامن پکڑا جائے، اور سمجھا جائے کہ اصل میں ملک میں تقسیم محب وطن اور غدار کی نہیں بلکہ حکمران سرمایہ دار طبقہ اور محنت کش طبقے کی ہے، اور ہمیں ملک میں موجود دیگر قوموں کے نچلے طبقات کی تحریکوں سے جڑنا ہے، تبھی ہماری اپنی آزادی بھی ممکن ہے۔ ورنہ ہم پاکستان اور ایران کی محکوم طبقات اپنے اپنے حکمران طبقہ کے استحصال شکار رہیں گے۔
ایرنی عوام کی تحریکیں:
اس ایرانی معاملے میں ہمیں ایرانی ریاست کے خلاف پاکستانی قوم پرستی دکھانے کے بجائے ایرانی عوام کی تحریکوں سے یکجہتی دیکھانی چاہیئے جو اس کے جبر کے خلاف پچھلے ۱۰-۱۲ سالوں سے عوامی مزاہمت کر رہے ہیں۔ ایرانی عوام نے پچھلے چند سالوں میں حکمران طبقہ کے طرف سے مہنگائی مسلط کرنے کے خلاف تحریک چلائی، اور دو مرتبہ اپنے موجودہ اشرفیائی کی الیکشن میں غیر جمہوریت مداخلت کے خلاف وسیع تر جمہوریت لانے کی بھی تحریک چلائی۔ دو سال پہلے ایرنی خواتین نے مزہب کی آڑ میں چھپے صنفی جبر کے خالف ایک بے مثال تحریک چلائی جس میں مردوں نے بھی بڑی تعداد میں ساتھ دیا۔



خلاصہ :
چاہے پاکستان ہو یا ایران، یہاں کے اکثریتی عوام کی ترقی، آزادی، پر انصاف سماج کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہمارا اپنا سرمایہ دار اشرافیہ اور اسی کا فوجی ادارہ ہے، جو اصل میں حکمران طبقہ کے جبر کا آلہ اور اوزار ہے۔ یہ آلہ کسی بیرونی خطرے سے بچانے کے لیے نہیں کھڑا کیا گیا، بلکہ اصل میں اپنے ہی عوام کی تحریکوں کا دبانے اور انہیں مغلوب و غلام رکھنے کے لیے بنایا گیا ہے۔ یہ بات پاکستان اور ایران کی تاریخ میں بار بار ثابت ہوئی ہے۔ اس لیے ہم عوام کی آزادی اور فلاح اپنے اپنے حکمران طبقہ کے سماج پر پکڑ کو کمزور کر کے اپنی اجتماعی طاقت بڑھانے میں ہیں۔ ساتھ ہیں ہمیں ایک دوسرے کی عوامی تحریکوں کے ساتھ یکجہتی بھی کرنی ہوگی۔