کشمیری عوامی تحریک اور پنجابی قوم پرستی کی رجعت پسند پرتیں
حالیہ کشمیری تحریک کی روشنی میں: نیچے سے اٹھنے والی عوامی تحریکیں اور پنجاب کے قوم پرست دانشوروں کا رویہ
( نوٹ: یہ تحریر اگست ۲۰۲۳ سے جاری پاکستانی زیر انتظام کشمیر میں عظیم عوامی تحریک کی بجلی اور آٹے کے ریٹ گھٹانے کی مانگ بالآخر ۹ مہینے بعد ۱۱ مئی 2024 کو حکومتی نوٹیفیکیشن کے زریعہ حاصل کرنے پر کچھ پنجانی نیشنلسٹوں کے انتہانی منفی ردعمل کے تناظر میں لکھی ہے۔ پر مضمون میں معاملہ کے نظریاتی پہلوئوں کو سمجھنے کی کوشش کی ہے اور اس عمومی رویہ پر لکھا ہے چاہے قوم کوئی بھی ہو۔ پاکستان کے دیگر صوبوں جیسے خیبر پشتونخواہ میں بھی غریب پشتون کی عوامی تحریکوں بالخصوص پشتون تحفظ موومنت پر اپر مڈل کلاس پشتونوں کی ایک بڑی تعداد نے ایسا ہی ردعمل دکھایا ہے۔)
پاکستانی زیر انتظام کشمیر میں ۹ مہینے سے جاری حالیہ کشمیری عوامی تحریک پر پنجاب کی قوم پرست مڈل کلاس کی کچھ پرتوں نے پہلے لاتعلقی، پھر بیزاری اور بالاخر جب تحریک کامیاب ہوئی تو مخلالفانہ ردعمل دکھایا۔ اس منفی رویہ سے ایک تضاد سامنے آتا ہے کیونکہ یہ تو گریٹر پنجاب کے داعی ہیں جس میں وہ پاکستانی کشمیر، KPK کے ہزارہ ڈویژن اور سائوتھ پنجاب میں بولی جانی والی بولیوں کو پنجابی زبان کی ہی dialects سمجھتے ہیں اور قومی لحاظ سے بھی ان خطوں کے باسیوں کو پنجابی قوم ہی کا حصہ سمجھتے ہیں۔ تو سوال یہ اٹھتا ہے کہ پنجابی قوم ہی کے پاکستانی کشمیر میں رہنے والے باسیوں نے اگر اپنی گراس روٹس عوامی تحریک سے حکومت سے بچلی اور آٹا معائدہ شدہ قیمت پر بحال کروایا تو پھر اس سے بےزاری کیوں؟
یہ اپنے اس تضاد کو پنجابی قومیت کے اپنے تصور سے کیسے reconcile کرتے ہیں ؟
آئیے ان تضادات کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
میرا اندازہ ہے اس منفی رویہ کی جڑیں نظریاتی بھی ہیں اور طبقاتی بھی۔ یعنی مسلہ اس نظریہ کا بھی ہے جو یہ طبقاتی پرتیں رکھتی ہیں اور اس میں بھی کہ وہ سماج میں کونسی طبقاتی پوزیشن پر رہتے ہیں۔


اصل میں سماج کو طبقاتی فریم ورک سے دیکھنے اور غیر طبقاتی ( یعنی سرمایہ داری کا نارمل سمجھ کر) دیکھنے سے پورا کا پورا زاویہ ہی بدل جاتا ہے۔
مارکسی فریم ورک سماج کو horizontally تقسیم کر کے دکھاتا ہے، یعنی ایک ہی قوم ، مزہب، فرقہ کے اندر موجود طبقات کی اصلیت کو ظاہر کرتا ہے۔
جبکہ سرمایہ دارانہ فریم ورک سماج کو vertically تقسیم کرتا ہے۔ اب چونکہ مڈل کلاس کی سیاسی طور پر passive پرتیں سرمایہ دارانہ نظام کو قدرتی سمجھتی ہیں، اس لئے اس کی نظر و چشمے سے دیکھیں تو طبقات بھی قدرتی ہوتے ہیں۔ اب یہ سماج کےُمسائل کی وجہ قومی، لسانی، مزہبی، فرقہ وارانہ، کلچرل ٹائپ کی تقسسیموں میں دیکھتا ہے۔ اسے سماج کو vertically تقسیم کرنا کہتے ہیں۔ اسی وجہ سے ایسے مڈل یا لوئر کلاس یا پیٹی بورژوا اپنی اپنی قومیت، ہم مزہب، ہم کلچر کے حکمران طبقہ کے ساتھ کھڑے ہوکر دوسری قومیت، مزہب، فرقہ ، یاد دوسرے ملک کے سارے افراد کو، بلا رعایت طبقہ، ایک مجموعہ کی صورت میں اپنا مخالف دیکھتے ہیں۔ اس وجہ سے ایسے موقع پر یہ دوسری قومیتوں، مزہبوں، کلچرز، کے خلاف کھل کر نسل پرستی دکھاتے نظر آتے ہیں۔ اس مخالفت لبرلز مڈل کلاس بھی آتی ہے جن کی سرمایہ دارنہ نظام پر کوئی تنقید نہیں ہوتی ، بلکہ وہ اس نظام کے زریعہ ترقی آتا دیکھتے ہیں۔
دوسرے بات یہ کہ چونکہ ان کے پاس سرمایہ دارنہ نظام کے متبادل کوئی اور نظام نہیں ہوتا، تو یہ اسی کی نا انصافیوں ، جبر استحصال پر کُڑھتے تو بلاشبہ ہیں ، پر حل اسی کے اندر اصلاح پسندی اور مزید سرمایہ داری میں ڈھونڈتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اپنے اپنے ہم زبان اصلاح پسند دکھنے والے سرمایہ دار طبقہ کے پالوسٹ فرد یا پارٹی سے بہتری کی امید لگاتے ہیں، یوں نواز شریف، زرداری، عمران خان وغیرہ کے ہمایتی اور اس سرمایہ دار لیڈرشپ کے اثر سے باہر کسی بھی ریڈیکل عوامی تحریک سے خائف، ڈر میں اور بیزاری میں رہتے ہیں۔
یہ نیچے سے ابھرنے والی مزاہمتی تحریکوں میں حصہ تو بالکل نہیں لیتے ہیں ، پر ان نچلے طبقہ کی تحریکوں کی passive or active انداز میں مخالفت اس لئے بھی کرتے ہیں کیونکہ تحریکوں کے نتیجہ میں جو نئی نچلے طبقہ کی عوامی لیڈرشپ ابھرتی ہے اور جو mass self organization وجود پاتی ہے، اس سے اس مڈل کلاس کی سماج میں اپنی پہلے موجود لیڈرشپ پوزیشن خطرے میں آجاتی ہے۔
یوں اس جہنجہلاہٹ اور کڑھن میں یہ تحریکوں پر تنقید و الزامات لگانے کا سلسلہ شروع کردیتے ہیں۔


ایسے فضول الزامات سماج کی اسی طبقاتی پرت کے لوگ وہی لگاتے ہیں جو خود متحرک نہیں ہوتے، اور جب ملک کے کسی اور حصہ میں عوام اپنی پُر ہمت تحریک سے کچھ حاصل کرتے ہیں، تو ان کو اپنی بے عملی کا احساس ہونے لگتا ہے، حسد ہوتا ہے، پھر ان سے لبرلزم یا ترقی پسند قوم پرستی کا لبادہ و نقاب اُتر جاتا ہے اور یہ اپنی اصلی شکل میں آشکار ہوجاتے ہیں۔۔۔یعنی نسل پرست، سرمایہ دار حکمران طبقے کے نظام کے apologists ، اس کے بھنپو ۔ اور سماج میں status quo برقرار رکھنے کے رکھوالے۔

انقلابی اور مزاہمتی دور میں ایسے ہزاروں بظاہر پروگریسو و انقلابی نظر آنے والے بےنقاب ہونگے ، اور یہ انقلابی دور کا احسان ہوتا ہے کہ یہ سماج کے اندر کی مکھن اور چھاچھ کو علیحدہ کردیتا ہے۔ یہی انقلاب کا کمال ہے کہ یہ سماج پر پڑے ہزاروں سال کے گند اور کثافت کو صاف کردیتا ہے۔
پس ثابت ہو کہ بغیر طبقاتی تناظر کے قوم پرستی پروگریسو نہیں رہ سکتی بکہ صرف رجعت پسند نسل پرستی بن جاتی ہے۔ یہی قوم دوستی اور نسل پرستی کا فرق ہے۔ ہر قوم کے سوشلسٹ ہی اپنی قوم کی اکثریتی محکوم عوام کے دوست ہوتے ہیں۔ ساتھ ہی وہ دوسری قوموں سے نفرت کا پرچار کرنے کے بجائے ان کے مفادات سے بھی دوستی رکھتے ہیں اور اسیے سماج کی تشکیل کے لیے اجتماعی اور بین القومی جدوجہد کی سعی کرتے ہیں جس میں ہر قوم کے حکمران طبقات کی مشترکہ استحصالی نظام ختم ہو اور قومی جبر بھی ہر شکل میں مٹ جائے۔